بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
افضل الذکر۔ لا اله الا الله محمد رسول الله
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ
تصوف کیا ہے؟
جواب : تصوف کو لفظوں میں سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے ۔
"بقول حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز"
’’منہ سے کہیں شکر تو زباں کو نہیں مزہ
جس نے چکھا زبان پر لذت وہی لیا‘‘
ہم زبان سے لاکھ مرتبہ شکر شکر کہیں مگر ہمارے الفاظ شکر کے ذائقہ کی ترجمانی نہیں کرسکتے ۔ اگر کسی نے رنگوں کو نہ دیکھا ہو اور وہ تم سے پوچھے کہ رنگ کیا ہے تو تم کیسے بتائوگے اور کیسے سمجھائوگے۔ بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کو رنگ دکھا دو۔ وہ دیکھتے ہی سمجھ جائے گا کہ فلاں رنگ ایسا ہوتا ہے۔ الفاظ کسی بھی خوشبو کو سونگھا نہیں سکتے نہ بھیرویں راگنی سنا سکتے ہیں ۔ پس جب مادّی (پانچ)حواس خمسہ کے احساسات الفاظ میں بیان نہیں کئے جاسکتے تو قلب و روح کے لطیف احساسات جو سرمایہ تصوف ہیں کس طرح الفاظ کے دائرے میں لائے جاسکتے ہیں ۔ آدمی لاکھ تصوف کی کتابیں پڑھے اور زبان سے تصوف تصوف کہے جائے لیکن وہ تصوف ہر گز نہیں سمجھ سکتا۔
حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’تصوف اسم نہیں رسم ہے ۔ اس میں ہمہ گری ہے ، ہر شئے کے عرفان سے خالق تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
تصوف ایک حال ہے ، کیفیت ہے، وجدان ہے، طلب اس کی کنجی ہے، ذوق و شوق اس کی بقا ہے ، عشق و محبت اس کا رکنِ اعظم اور ذاتِ مطلق تک پہنچنے کا زینہ ہے، معرفت اس کی خصوصیت ہے، فنا فی الذات اس کا مقصد ہے اور بقا در بقا اس کا نتیجہ ہے۔
بزرگوں کے اقوال علمِ تصوف کو سمجھنے کے لئے کچھ حد تک مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ مگر یہ بات آپ کے پیشِ نظر رہے کہ تصوف کی تعریف اور تفسیر کے بارے میں حضراتِ صوفیہ کے احکامات مختلف ہیں ۔ ان سب کا حاصل یہ ہے کہ تصوف کا مطلب ہے اخلاق کی اصلاح، باطن کی صفائی، صفاتِ کاملہ سے موصوف ہونا، اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے موصوف ہونا، راہ حق پر قائم رہنا، حقوق کا ادا کرنا، دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئےخاص کرنا، بے فائدہ کاموں سے پرہیز کرنا، تقویٰ کی پابندی کرنا۔
حضرت سید الطاہرین امام محمد باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف اچھے اخلاق کا دوسرا نام ہے۔ جو اچھے اخلاق میں تجھ سے زیادہ ہے وہ تصوف میں زیادہ ہے۔"
حضرت معروف کرخی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
"تصوف ہر چیز کی حقیقت جاننے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے مایوس ہونے کا نام ہے ۔"
حضرت سید الطائفہ جنید بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف یہ ہے کہ تو اپنے نفس کو اللہ کے ساتھ اس طرح چھوڑ دے کہ وہ جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔"
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔"
حضرت ابو الحسن نوری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف علم و فن کا نام نہیں ، مجموعہ ، اخلاق کا نام ہے ۔"
حضرت خواجہ بہا ئوالدین نقشبندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف یہ ہے کہ اجمالی معاملہ تفصیلی ہوجائے اور استدلالی معاملہ کشفی ہوجائے ۔"
حضرت مجددِ الف ثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف شریعت پر اخلاص سے عمل کرنے کا نام ہے ۔"
مولوی اشرف علی تھانوی نے فرمایا۔
"تصوف اپنے کو مٹادےنے کا نام ہے ۔"
حضرت سید افتخار علی وطن قبلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
" تصوف شریعت کا مغز ہےجو لوگ براہین و محبت سے تقریر کرتے ہیں اور خلاف شریعت مسائل توحید جانتے ہیں اور سمجھاتے ہیں وہ ملحد ہیں۔ تصوف وہ ہے جو واقعہ میں سالک معائنہ کرے۔ تجلیاتِ الٰہی کا اور واقعہ اس کو کہتے ہیں جو خواب و بیداری میں سالک پر ایک حال طاری ہوتا ہے کہ نہ وہ خواب ہے نہ بیداری ویسےشخص کو بیدار سمجھےکہ سویا ہوا شخص تصور کرے کہ بیدار ہے اور واقعہ کی نوعیت اور تعریف یہ ہے جیسے خام کہ وہ عین روز ہے نہ عین شب ، پس ایسے وقت و حالت میں سالک کو جو نظر آئے وہ تصوف ہے ۔"
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
افضل الذکر۔ لا اله الا الله محمد رسول الله
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ
تصوف کیا ہے؟
جواب : تصوف کو لفظوں میں سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہے ۔
"بقول حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز"
’’منہ سے کہیں شکر تو زباں کو نہیں مزہ
جس نے چکھا زبان پر لذت وہی لیا‘‘
ہم زبان سے لاکھ مرتبہ شکر شکر کہیں مگر ہمارے الفاظ شکر کے ذائقہ کی ترجمانی نہیں کرسکتے ۔ اگر کسی نے رنگوں کو نہ دیکھا ہو اور وہ تم سے پوچھے کہ رنگ کیا ہے تو تم کیسے بتائوگے اور کیسے سمجھائوگے۔ بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کو رنگ دکھا دو۔ وہ دیکھتے ہی سمجھ جائے گا کہ فلاں رنگ ایسا ہوتا ہے۔ الفاظ کسی بھی خوشبو کو سونگھا نہیں سکتے نہ بھیرویں راگنی سنا سکتے ہیں ۔ پس جب مادّی (پانچ)حواس خمسہ کے احساسات الفاظ میں بیان نہیں کئے جاسکتے تو قلب و روح کے لطیف احساسات جو سرمایہ تصوف ہیں کس طرح الفاظ کے دائرے میں لائے جاسکتے ہیں ۔ آدمی لاکھ تصوف کی کتابیں پڑھے اور زبان سے تصوف تصوف کہے جائے لیکن وہ تصوف ہر گز نہیں سمجھ سکتا۔
حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
’’تصوف اسم نہیں رسم ہے ۔ اس میں ہمہ گری ہے ، ہر شئے کے عرفان سے خالق تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
تصوف ایک حال ہے ، کیفیت ہے، وجدان ہے، طلب اس کی کنجی ہے، ذوق و شوق اس کی بقا ہے ، عشق و محبت اس کا رکنِ اعظم اور ذاتِ مطلق تک پہنچنے کا زینہ ہے، معرفت اس کی خصوصیت ہے، فنا فی الذات اس کا مقصد ہے اور بقا در بقا اس کا نتیجہ ہے۔
بزرگوں کے اقوال علمِ تصوف کو سمجھنے کے لئے کچھ حد تک مدد گار ہوسکتے ہیں ۔ مگر یہ بات آپ کے پیشِ نظر رہے کہ تصوف کی تعریف اور تفسیر کے بارے میں حضراتِ صوفیہ کے احکامات مختلف ہیں ۔ ان سب کا حاصل یہ ہے کہ تصوف کا مطلب ہے اخلاق کی اصلاح، باطن کی صفائی، صفاتِ کاملہ سے موصوف ہونا، اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے موصوف ہونا، راہ حق پر قائم رہنا، حقوق کا ادا کرنا، دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئےخاص کرنا، بے فائدہ کاموں سے پرہیز کرنا، تقویٰ کی پابندی کرنا۔
حضرت سید الطاہرین امام محمد باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف اچھے اخلاق کا دوسرا نام ہے۔ جو اچھے اخلاق میں تجھ سے زیادہ ہے وہ تصوف میں زیادہ ہے۔"
حضرت معروف کرخی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
"تصوف ہر چیز کی حقیقت جاننے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے مایوس ہونے کا نام ہے ۔"
حضرت سید الطائفہ جنید بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف یہ ہے کہ تو اپنے نفس کو اللہ کے ساتھ اس طرح چھوڑ دے کہ وہ جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔"
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔"
حضرت ابو الحسن نوری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف علم و فن کا نام نہیں ، مجموعہ ، اخلاق کا نام ہے ۔"
حضرت خواجہ بہا ئوالدین نقشبندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف یہ ہے کہ اجمالی معاملہ تفصیلی ہوجائے اور استدلالی معاملہ کشفی ہوجائے ۔"
حضرت مجددِ الف ثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
"تصوف شریعت پر اخلاص سے عمل کرنے کا نام ہے ۔"
مولوی اشرف علی تھانوی نے فرمایا۔
"تصوف اپنے کو مٹادےنے کا نام ہے ۔"
حضرت سید افتخار علی وطن قبلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
" تصوف شریعت کا مغز ہےجو لوگ براہین و محبت سے تقریر کرتے ہیں اور خلاف شریعت مسائل توحید جانتے ہیں اور سمجھاتے ہیں وہ ملحد ہیں۔ تصوف وہ ہے جو واقعہ میں سالک معائنہ کرے۔ تجلیاتِ الٰہی کا اور واقعہ اس کو کہتے ہیں جو خواب و بیداری میں سالک پر ایک حال طاری ہوتا ہے کہ نہ وہ خواب ہے نہ بیداری ویسےشخص کو بیدار سمجھےکہ سویا ہوا شخص تصور کرے کہ بیدار ہے اور واقعہ کی نوعیت اور تعریف یہ ہے جیسے خام کہ وہ عین روز ہے نہ عین شب ، پس ایسے وقت و حالت میں سالک کو جو نظر آئے وہ تصوف ہے ۔"
No comments:
Post a Comment